بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || صہیونی ریاست کے جرائم اور مظالم کا سلسلہ جاری ہے اور خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق غزہ کی تقریبا 20 لاکھ آبادی کی اکثریت "اسرائیلی" حملوں کے دوران بے گھر ہونے پر مجبور ہوئی، جنگ بندی کے بعد آبادی کا بڑا حصہ اب خیموں اور دیگر عارضی پناہ گاہوں میں زندگی بسر کر نے پر مجبور ہے۔
اکتوبر کے وسط کے بعد سے بڑی حد تک جنگ بندی برقرار ہے، تاہم تنازع کے باعث غزہ میں بنیادی انفراسٹرکچر سمیت بڑی حد تک تباہی پھیلی ہے، جس سے لوگوں کی زندگیوں میں سخت مشکلات پیدا ہو گئی ہیں۔
ام احمد عوضہ نے دورانِ بارش اپنے خیمے کے باہر کھڑے ہو کر کہا کہ یہ تکلیف، یہ بارش اور کم دباؤ والے موسمی حالات تو ابھی شروع بھی نہیں ہوئے، سردیوں کا آغاز ہی ہوا ہے اور ہم پہلے ہی سیلاب اور رسوائی کا سامنا کر رہے ہیں۔
ہمیں نئے خیمے اور ترپال نہیں ملیں، ہماری ترپال اور خیمہ دونوں 2 سال پرانے ہیں، یہ مکمل طور پر خراب ہو چکے ہیں۔
فلسطینی این جی اوز نیٹ ورک کے سربراہ امجد الشوا نے کہا کہ تقریبا 15 لاکھ بے گھر افراد کے لیے کم از کم 3 لاکھ نئے خیموں کی فوری ضرورت ہے۔
فلسطینی سول ڈیفنس سروس کے مطابق گزشتہ ہفتے شدید بارشوں کے دوران ہزاروں خیمے جو بے گھر خاندانوں کے لیے بنائے گئے تھے، پانی میں ڈوب گئے یا اس سے متاثر ہوئے ہیں۔
کچھ خیمے مکمل طور پر بہہ گئے کیونکہ ساحلی علاقے میں پانی کی سطح زمین سے 40 سے 50 سینٹی میٹر بلند ہو گئی تھی، ساتھ ہی طبی عملہ کے مطابق ایک فیلڈ ہسپتال کو بھی سیلاب کی وجہ سے اپنی معمول کی کارروائی کو بھی عارضی طور پر روکنا پڑا۔
اقوام متحدہ نے کہا کہ وہ غزہ میں سردیوں کے موسم کی مناسبت سے امداد پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے، تاہم "اسرائیل" امدادی اداروں کی جانب سے پابندیوں کے باعث ٹرکوں کی تعداد محدود ہے۔
غزہ کے حکام کا کہنا ہے کہ "اسرائیل" جنگ بندی کے تحت وعدہ شدہ امداد اتنی مقدار میں داخل نہیں ہونے دے رہا، امدادی ادارے بھی کہتے ہیں کہ "اسرائیل" کئی ضروری اشیا کے داخلے میں رکاوٹ ڈال رہا ہے۔
ادھر اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ وہ مکمل طور پر جنگ بندی کے تحت اپنے وعدوں پر عمل کر رہا ہے اور کسی بھی قسم کی امداد کو غزہ میں داخل ہو نے سے نہیں روکتا؛ لیکن اس کے دعوؤں کی تصدیق صرف تل ابیب ہی کر سکتا ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ